Select Menu

Loyal TV

اہم خبریں

clean-5

Comments

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

» » » » طالبان کے پاس 85 فیصد ممالک سےزیادہ بلیک ہاکس،اڑائیں گےکیسے؟

 

جہاں ایک طرف امریکی حکام اس بات پر نالاں نظر آرہے ہیں کہ اربوں ڈالر اخراجات کے باوجود افغان فوج طالبان کے خلاف کیوں نہیں لڑی وہاں انہیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ امریکہ کے فراہم کردہ جدید ہتھیار طالبان کے قبضے میں کیوں چلے گئے۔

برطانوی جریدے ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکی کانگریس کے رکن جم بینکس کا کہنا ہے کہ افغان نیشنل آرمی نے 85 ملین ڈالر کا امریکی سازو سامان طالبان کے ہاتھوں میں جانے دیا جس میں 75 ہزار گاڑیوں اور 6 لاکھ سے زائد ہتھیاروں کے علاوہ 200 سے زائد طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی شامل تھے۔
جم بینکس کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اس وقت دنیا کے 85 فیصد ممالک سے زیادہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔جم بینکس کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اس وقت دنیا کے 85 فیصد ممالک سے زیادہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔
اسلحے کے ساتھ جنگ میں استعمال ہونے والا جدید سازوسامان کا استعمال تو طالبان کرسکتے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں کچھ پروموشنل ویڈیو بھی جاری کی ہیں تاہم ایک سوال جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان افغان نیشنل آرمی سے ہتھیائے گئے جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹرز کا استعمال کیسے کریں گے۔
طالبان نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں طالبان جنگجو بظاہر قندھار ہوائی اڈے پر امریکی فوج کے امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کے گرد جشن منا رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں طالبان جنگجوؤں کو طیاروں سے چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

طالبان کے پاس کتنے طیارے ہوسکتے ہیں؟
افغان نیشنل آرمی کے پاس کل 220 جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز موجود تھے جن میں سے زیادہ تر ہیلی کاپٹرز تھے لیکن افغان میڈیا کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں موجود طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کی تعداد صرف 160 ہے کیوں کہ باقی ہیلی کاپٹرز اور طیاروں میں افغان ایئرفورس کے اہلکار پڑوسی ممالک فرار ہوگئے اور وہ جہاز تاحال انہی ممالک کے ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں۔
افغان طالبان کا زیادہ تر تجربہ گوریلا جنگ کا ہے لیکن وہ ریگولر آرمی کی طرح بھی لڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں مگر پہلے دور حکومت کی طرح اس مرتبہ بھی طالبان اب تک جہاز یا ہیلی کاپٹرز کا استعمال نہیں کر سکے۔

طالبان اپنی فضائی فورس کیسے تشکیل دے سکتے ہیں؟

سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا ہے کہ افغان فضائیہ کے پا جتنے پائلٹس تھے وہ یا تو طالبان کے ہاتھوں قتل ہوگئے یا ملک چھوڑ چکے ہیں اور فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ افغانستان میں کتنے طیارے باقی بچے ہیں جبکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ جہاز درست حالت میں بھی ہیں یا نہیں۔
ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا تھا کہ ان تمام باتوں کا جائزہ لینے کے لیے بھی طالبان کے پاس متعلقہ شعبوں کے ماہرین موجود نہیں اور انہیں ان فضائی اثاثوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے بھی کسی دوسرے ملک کی مدد درکار ہوگی۔

طالبان کو پائلٹس اور انجینئرز بنانے میں کتنا عرصہ درکار ہوگا؟
ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا تھا کہ جہاں تک پائلٹ اور انجینئر تیار کرنے کا تعلق ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ ان کے پاس موجود جہاز کس نوعیت کے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ افغانستان کے پاس زیادہ تر پرانے جہاز ہیں اور ایسے جہاز اپریٹ کرنے کے لیے تو پائلٹس ڈیڑھ سال میں ٹرین ہوسکتا ہے مگر سیفٹی اسٹینڈرز کے مطابق فلائینگ کے لیے کم از کم 4 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پائلٹس کو دو سے ڈھائی سال لگتے ہیں مگر مکمل آپریشنل ٹریننگ تک پائلٹس کو 5 سال لگ جاتے ہیں۔

کیا جہازوں کی مینٹیننس امریکی تعاون کے بغیر ممکن ہوگی؟

فیض امیر کا کہنا تھا کہ افغان فضائیہ کے پاس اکثر جہاز روسی ساخت کے تھے اور امریکا نے بھی روس سے طیارے اور ہیلی کاپٹرز خرید کر انہیں دیے تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ افغان فضائیہ کو روسی جہاز اڑانے کا تجربہ تھا لیکن کچھ ہیلی کاپٹر اور طیارے امریکی ساخت کے بھی تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایسی صورت میں ان کو دو ٹیمیں تیار کرنی ہوں گی کیوں کہ روسی اور امریکی سازوسامان کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔
ایئروائس مارشل کا کہنا تھا کہ افغان فضائیہ کے لیے بھی مینٹیننس کا کام بیرونی کنٹریکٹر انجام دیتے تھے اور اب بھی دنیا بھر میں وہ کہیں سے بھی ان کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں لیکن افغانستان کی موجودہ مالی حالت کو دیکھ کر اس بات کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے مگر ان کو جو بڑا مسئلہ درپیش ہوگا وہ ان جہازوں کے پرزہ جات کا ہے جو ان متعلقہ ممالک کے بغیر کوئی فراہم نہیں کرسکے گا۔

کیا طالبان ان طیاروں کو فروخت کرسکتے ہیں؟
ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا تھا کہ طالبان اگر فروحت کرنا بھی چاہیں تو جب تک ان جہازوں کو بنانے والے ممالک اجازت نہیں دیں گے ان طیاروں کو کوئی بھی نہیں خرید سکے گا کیوں کہ ان کے لیے اسپیئر پارٹس کی فراہمی صرف وہی ممالک کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان پر پابندی کے بعد ہم ایف سولہ طیاروں کے لیے بلیک مارکیٹ سے پارٹس خریدتے تھے مگر اس کے لیے بھی مہارت ضروری ہے۔

کیا پاکستان اس سلسلے میں طالبان کی مدد کرسکتا ہے؟
فیض امیر کا کہنا تھا کہ ایئرفورس کےلیے ڈسپلن بہت ضروری ہے اور اس کی سلیکشن اور تربیت کا ایک خاص میکنزم ہوتا ہے اور اس سلسلے میں بھی طالبان کو مدد کی ضرورت ہوگی ورنہ غیر مروجہ تربیت سے بنے پائلٹس اپنے علاوہ دوسروں کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان آرمی اور ایئرفورس کے اہلکار اب تک بھارت میں تربیت حاصل کرتے تھے لیکن اب طالبان کے لیے آپشن پاکستان اور روس ہوسکتے ہیں جس کا مستقبل میں امکان بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے افغان پائلٹس کو یہاں زبان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیوں کہ اکثر افغانی اردو جانتے ہیں اور اس کے علاوہ انہیں پشتو میں بھی سمجھایا جاسکتا ہے

پاک اردو ٹیوب Loyal TV

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں